تبلیغی جماعت



تبلیغی جماعت
عجیب طرح کا شور تھا آج محلے میں،
ایک قیامت بپا تھی ماؤں کے سینے پر،۔۔۔! اچھا خاصا ہستا بستا گاؤں – پُرسکوں اور دین و دنیا کے جھنبھیلوں سے آزاد--!
اور آج ۔۔ آج اس گاؤں کے آزاد خیاوں میں خلل آگیا تھا لوگ اپنے روز مرہ کی عادات سے ذرا ہٹ گئے تھے۔
جہاں نچے گلیوں میں عموماً عصر کے وقت رونق لگایا کرتے تھے آج۔۔۔ آج ماؤں نے اپنے لعل اپنے سینے سے لگائے ھوئے تھے- لوگوں نے مسجد جانا کم کیا پھر رفتہ رفتہ چھوڑ دیا ، گاؤں میں ایک ھی چھوٹی سی مسجد اور اس مسجد میں محبتوں کا بے انت سمندر تھا-بھولے بھالے کسان صبح ایک دیسی اور سادہ سے مُلا کی اذان کی آواز پر مسجد آتے ، سادہ سی نماز پڑھتے- حال چال دریافت کفتےاور سورج نکلنے سے قبل ھی کھیتوں کو روانہ ھو جاتے تھے۔
مگر آج- آج تو گاؤں پر سناٹا چھا گیا تھا۔ہر کوئی اپنی اپنی جگہ جہاں تھا وہ خبر پاتے ھی وہاں قید ھو گیا تھا۔ آخر ماجراکیا ھوا ھوگا۔؟
ارے جناب کچھ نھیں ۔۔ بس مسجد میں اس دن تبلیغی جماعت آئی ھوئی تھیی - جماعت نا ھوئی قیامت ھوئی۔۔!
یہ وہ وقت تھا جب پاکستان میں دوسری نسل جوان ھو رھی تھی بلکہ تبلیغی جماعت نئی نئی بنی تھی۔ اور پھر جب یہ نئی نئی جماعت کچھ پرانی ھوئی تو لوگوں نے ان کے پاس بیٹھنا شروع کیا- انکے حال احوال سب کچھ --- جب لوگوں نے کچھ زیادہ ھی جان لیا انکو تو بجائے ڈرنے کے انکو مساجد سے بھگانا شروع کر دیا—ہمارے باپ دادا کی زندگی میں سب واقع ھو چکے ھیںذیادہ پرانی بات نھیں ۔
اور آج کی نسل یعنی میں ۔۔ آپ۔۔۔ ہم نا ان تبلیغی جماعت والوں سے ڈرتے ھیں ---- نا انکی سنتے ھئیں  نا سنا تے ھیں—وہ خود ھی چند روز مسجد میں قیام کرتے ھیں گلی محلوں میں پھرت ھیں ہر آتے جاتے کو سلام اور اگر کوئی کھڑا مل گیا تو بس بس یہ بھی وہیں کھڑے ھو گئے۔ بس ایک ھی درس ایک ھی رٹا ھوا سبق سنایئں گے۔۔۔
اور اپنی مدت پوری کرکے روانہ---!
خر ایسا کیوں ۔۔؟؟؟؟ ہمارا کوئی ذاتی مسئلہ تو ھے نھیں سماجی ھے ۔۔۔ سو ' تبلیغی جماعت' پہلے تو نام بدلیے حضور—آپ مسلمان – ہم مسلمان---- تو مسلمانوں میں تبلیغ کیسی۔۔۔؟؟
اور دوسرا – یہ لوگ صرف داعیں رٹ لیتے ھیں اور جب اپنی ذندگی کے معمولات سے تھک جاتے ھیں تو جماعت میں شامل ھوکر گھوم پھر آتے ھیں – تو بتائے جس کی نیت ھی گھومنے پھرنے کی ھووہ گھومے لوگوں کو خاک سیدھی راہ بتائے گا/؟؟؟
وہ تو انھیں اور گھمائے گا۔۔!
اور چکر اور پھر چکر پر چکر۔۔!
حضور یہ کوشش بھت اچھی ھے مگر کیا ھی اچھا ھوکہ آپ ( امیرِ جماعت) لوگوں (تبلیغی) کا شعور ببھی دیکھ لیں – بجائے داڑھی دیکھنے کے--!
جسکی داڑھی لمبی دیکھی اسے جماعت کا لیڈر بناکر – مَن و مَن سمان لاد کر گدھوں کی طرح روانہ کردیا جاتا ھے—نا کوئی خاص نصیحت—نا کوئی استاد- جو کچھ سکھا کر تبلیغ کیلئے بھیجے۔۔ نا خود کوئی عالم۔۔۔۔
ظلم ھے سرا سر ظلم ھے یہ تبلیغی جماعت کے نام پر ظلم۔۔!
بھلا مجھے بتاؤ--ـ! انکے پاس کونسا نیا اسلام ھےجو کہتا ھے کہ بچوں کو جن پر نماز بھی فرض نھیں انھیں راستے میں روک کر—کھلتے بچوں کی کھیل خراب کرکے--- انکو اسلام کا درس دینا شروع کردو  کہ "اللہ ہی فرماتا ھے ، اسکی ہی بات مانو—ایسے مانو—وہ کہتا ھے تمھیں ازمائش کیلئے پیدا فرمایا –"
خاک ھو تم۔۔! بچوں پر اتنا ظلم۔۔!
میرے بھائی بچوںن کو آزمائش کا درس دے رھے ھو اور اپنی آزمائش بھلائے بیٹھے ھو۔ میاں خدا کی ہی آزمائش بھی ھوسکتی تھی تم --- تبلیغی جماعت والوں کی – کہ دیکھے تم لوگ بچوں سے کیا سلوک کرتے ھو۔۔؟ " انکو اپنی معصومیت مینں ڈوبے ، مذہبی تفریق کے بنا مسمم اور غیر مسلم بچوں کوکھیلنے دیتے ھو یا اپنے زہر سے ڈستے ھو" اور یقیناً تم اس  آزمائش میں ناکام رھے – "جہاں نماز بھی فرض نھیں ھوئی وہاں تم اپنا پیغام پہنچانا فرض کیوں سمجھتے ھو" ؟
تبلیغ کرنی ھی ھے تو خود کو تبلیغ کرو۔۔ خود کو اپنی تبلیغ کے تابع کرو – یعنی اپنے علم کے تابع --- پھر دیکھو کہ اب تم نے مبلغ بننا ھھے یو تمھیں کسی مبلغ کی ضرورت ھے۔۔۔۔۔
کیوں کیا ھوا۔۔۔۔؟ بس۔۔۔۔؟ جناب تبلیغ اتنی ھی آسان ھوتی تو نبی بچپن سے ھی تبلیغ کرتے مگر پہلے انھوں نے خود کو اہنے علم کے تابع کیا – عمل کیا—خود کو لوگوں کے سامنے رکھا – پھر تبلیغ کی۔۔۔ اور تم --- آج کے تبلیغی جماعت والے۔۔! انکی ناکامی کی سب سے بڑے دلیل ھی یہ ھے کہ کوئی مبلغ اپنے علاقےمیں تبلیغ نھیں کرتا۔۔!
ارے میاں اتنے ھی سچے اور باعمل ھو تو پہلے اپنے گھر، محلے اور مسجد مٰن تبلیغ کرو – وہاں انکی اصلاح کرو- پھر دوسروں کی فکر کرو--!
لہکن ہیان تو ماجرا ھی التا ھے- جو شخص گھر سے تنگ ھو – بیوےی سے لڑتا جھگڑتا ھو اسے کوئی ناکوئی مُلا گھیر لیتا ھے اور چند جذباتی باتیں سناکر داڑھی پر اکساتاھے اور پھر جماعت میں شامل کرلیتا ھے۔۔
 ہمارے ہاں ایک اور رواج بڑی تیزی سے سے رواج پا رھا ھےوہ یہ کہ کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طالب علموں خصوصاً ہاسٹلز میں رھنے والوں کو یہ تبلیغی جماعتیں بھت گھیرے ھوئے ھیں ۔۔ اور اپنے پکے لفظوں کی ضربوں سے طالب علموں کے کچے ذہنوں میں نقش کر دیتے ھیں اور پھر جو بے چارہ ایک بار اپنا نام ، مقام لکھ کر دے بیٹھا ، بس پھر ہر ہفتے اسکے ہان یہ تبلیغی ٹولہ پہنچا ھوتا ھے اور وہ طالب علم بے چارہ انکی ٹینشن سے پڑھنے سے بھی جاتا رھتا ھے
ہائے قربان جاؤں اپنے محبوبﷺ کی تبلیغ کے اور قربان کرون آج کے تبلیغیوں کو  جو نہ چھوٹا دیکھیں نہ بڑا—پہلا درس ھی اللہ سے شروع ھوتا ھے اور آخر پر داڑھی کا ٹھپہ لگا جاتے ھیں- کوئی اخلاقی بات نھٰیں --- کوئی معاشرے کے حقوق ق فرائض اور بچوں کی ذمہ داریوں کی کوئی بات تک نھیں کرتا—کوئی بیوی کے حوالے مرد کی ذمہ داری نھیں بتاتا۔۔ اسلامی بحث سے تو ویسے ھی دور ببھاگتے ھیں ، کوئی کچھ پوچھ لے تو --- کبھی آپ ھی پوچھ کر دیکھ لینا۔۔!
ہم گندے سے بندے ھیں اللہ و حضور ﷺ کو ماننے والے، اے تبلیغی جماعت والو۔! آُپ سے گزارش ھے ہمارے بچوں کو اپنے سائیہ شفقت سے مرحوم و محروم ھی رکھیں۔۔! ہم آپ سے نیک تو نھیں مگر علم اگر تھورا ھے تو عمل بھی اتنا ھی ھےاسلئے آپ بچوں کو بچے رھنے دیں۔۔!
آپ آیئے سو بار آئے ہمارے علاقوں میں – لیکن خدارا پہلے خود کو مبلغ بنائیں ، پہلے خود تو کسی مبلغ کے پلے پڑیں۔۔! کوئی علمی لحاظ سے ھی آپ ان پیںڈو لوگوں سے آگے بڑھئیے۔۔!
عرض ھی کرسکتے ھیں ہم گنہگار آپ فرشوں سے کہ ہم پر رحم کریں اور ہمارے بچوں پر بھی۔۔
خدارا داڑھی سے نکل کر سوچیئے۔۔ "جن کی داڑھیں ھی سوکھی پڑی ھیں انکوداڑھی سے کیا واسطہ"
خدا آپکا ہمارا ایک ھے وہ سب زبانیں جانتا ھے سو اگر کرئی پنجابی میں بھی دعا کر رھا ھے تو اسکی حوصلہ شکنی مت کرو ۔۔ اور تم کرو بھی تو کیوں بھائی--؟ یہ اللہ کا اس بندے کا معاملہ ھے -تم کوئی سفارشی تو نھیں ھو۔۔! 

خدارا – خدا سے ڈریئے۔!

Comments

Popular posts from this blog

غزل۔

Nanotechnology and Sustainable Agriculture

Why Can You Smell Rain?